رائٹر اسد وسیر
Ghazl no 1چراغ ہاتھ میں تھا تیر بھی کمان میں تھا میں پھر بھی ہار گیا (WaSeeR) تو جو درمیان میں تھا میں آسماں کی حدوں کو بھی پار کر لیتا مگر وہ خوف جو حائل میری اڑان میں تھا تھی زخم زخم مگر خود کو ٹوٹنے نہ دیا سمندروں سے سوا حوصلہ چٹان میں تھا بدل بھی سکتا ہے اخبار کی خبر کی طرح ترا یہ وصف بھلا کب مرے گمان میں تھا اکیلا چھوڑ دیا دھوپ میں سفر کے لئے اس ایک شخص نے جو دل کے سائبان میں تھا یقین تجھ پہ بھا کس طرح میں کر لیتا تضاد حد سے زیادہ ترے بیان میں تھاGhazl no 2پھر ایسا موڑ اس قصے میں آیا میں صدیاں گھوم کر لمحے میں آیا مرا رستہ کسی جنگل سے گزرا کہ خود جنگل مرے رستے میں آیا کسی کے عرش پر ہونے کا دعویٰ سمجھ اک شب مجھے نشے میں آیا میں اپنے گھر بڑی مدت سے کے بعد آج کسی مہمان کے دھوکے میں آیا ترا کردار چلتے پھرتے اک دن مری روداد کے کوچے میں آیا یونہی اک دن ہجوم خال و خد میں نظر خود کو وہ آئینے میں آیا منڈیروں سے اتر کر خوف کوئی دبے پاؤں مرے کمرے میں آیاGhazl no 3
یہ اچھا ہے کہ یہ اچھا نہیں ہے جو اس سے اب کوئی رشتہ نہیں ہے وہ ہے ویسا کی اب ویسا نہیں ہے اسے اک عمر سے دیکھا نہیں ہے رہا ہو کر قفس سے کیا کرے گا پرندے نے کبھی سوچا نہیں ہے نہ پوچھو وقت کی رفتار ہم سے گزرتا ہے مگر دکھتا نہیں ہے مجھے مقتل میں روکا ہے یہ کہہ کر تمہیں اب جان کا خطرا نہیں ہے سبھی جنت میں جانا چاہتے ہیں یہ دوزح کے لیے اچھا نہیں ہے خوشی کیوں پھر رہی ہے منہ پھلائے مرا اس سے کوئی جھگڑا نہیں ہے اسے پتھر کے ہو جانے کا ڈر تھا پلٹ کے اس لئے دیکھا نہیں ہے یہ کوئے عشق ہے اس میں سے آصفؔ نکلنے کا کوئی راستا نہیں ہے Thank you for reading
|
0 Comments